یہ موضوع شائد کچھ تعجب خیز محسوس ہوتا ہو لیکن عالمی سطح سے لیکر ملکی اور مقامی سطح تک غور کرنے اور جائزہ لینے سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ لوگ اب سیاست کا مطلب ہی کچھ اور سمجھتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر یہ مشورہ بھی دیدیا کرتے ہیں کہ اچھے لوگوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے بعض لوگ تو علماء کرام کو ہی نشانہ بناکر کہتے ہیں کہ انہیں سیاست میں حصہ لینا ہی نہیں چاہیئے یعنی انکی نظروں میں سیاست انتہائی گھٹیا چیز ہے اور شائد اسی سوچ اور نظریئے کی بنیاد پر ہندوستان کی آزادی کے بعد علماء کے ہی ایک پلیٹ فارم نے سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان بھی کردیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی علماء کا وہ طبقہ ملک کی ایک سیاسی پارٹی کانگریس کے ساتھ رہا حتیٰ کہ اس کی پہچان اور شناخت کانگریس کے ایک سیل کی طرح ہوگئی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کانگریس کی بلا شرط حمایت ہی کرنی تھی تو پھر سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیوں کیا گیا اور آپ کے اس روئیے سے مسلمانوں کا کیا بھلا ہوا ایسا غیر ذمہ دارانہ قدم نہ اٹھایا گیا ہوتا تو آج جمہوری نظام میں مسلمانوں کی بھی سیاسی طاقت ہوتی، سیاسی پہچان ہوتی اور جب سیاسی پہچان ہوتی تو قدم قدم پر رونا رونے کی ضرورت نہیں پڑتی –
اب دوسرا سوال: آخر سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا گیا تو پھر انفرادی طور پر سیاست کا ذائقہ چکھنے کی کوشش میں مصروف کیوں رہا گیا یا تو مخصوص طور پر کچھ لوگوں کی نیت درست نہیں تھی اور وہ چاہتے تھے کہ بس چند لوگوں تک اقتدار کا ذائقہ محدود رہے اور باقی لوگوں کو یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ وہ فلاں صاحب ہیں انکی حکومت تک رسائی ہے اور وہی جیسا چاہیں گے حکومت ویسا ہی کرے گی وہی ہمارے رہبر ہیں اسی لئے تو دینی تقریبات میں سیاسی لوگوں کو مدعو کیا جاتا رہا اور پھر بھی خود کو غیر سیاسی بتایا جاتا رہا اور قوم کو صرف عبادت کرنے کا سبق پڑھایا جاتا رہا نتیجہ یہ ہوا کہ آج سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں پھس نظر ارہا ہے اور اپنی ساری ناکامی کا ٹھکرا دوسروں کے سر پھوڑا جارہا ہے –
تیسرا سوال: آج بہت ساری مسلم پارٹیاں ہیں کچھ کا نام پانچ سال تک سننے میں آتا ہے اور کچھ کا نام ساڑھے چار مہینے تک سننے میں آتا ہے لیکن عام طور پر آج مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن نیتا جی ہیں،، ایم پی صاحب ہیں،، کچھ مولانا صاحبان بھی ہیں،، کوئی پوچھے تو پوچھے کیسے کہ جب آج مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو کل جب ریزرویشن دیا گیا تھا تو دفعہ 341 والے معاملے پر ایک آرڈیننس کے ذریعے پابندی لگائی گئی تو اس وقت زبان کیوں بند تھی؟ جب مذہب اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے تو ملک آزاد ہوتے ہی مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کو مخصوص سہولیات سے محروم کرنے کا حکومت کو مشورہ کیوں دیا؟ اور انکے مشوروں کی روشنی میں جب مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ہی ختم ہوگئی تو آج پھر سینے میں قوم کا درد کیوں اٹھنے لگا؟اس وقت اگر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہوتا تو شائد سمجھ میں آیا ہوتا اور مفاد پرستی سے اوپر اٹھنے کا جذبہ پیدا ہوا ہوتا تو ریزرویشن پر مذہبی پابندی نہیں لگی ہوتی اور آج مسلمانوں کی تقریباً چالیس برادریاں سیاسی طور پر مضبوط ہوتیں لیکن مساوات کا نعرہ لگانا تو بہت آسان ہے مگر مساوات کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل ہے اسی وجہ سے سینہ ٹھونک کر کہا جاسکتا ہے کہ مذہب اسلام کے اندر مساوات ہے مگر مسلمانوں کے اندر مساوات نہیں ہے، مذہب اسلام کے اندر اونچ نیچ، بھید بھاؤ نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے اندر آج بھی یہ بیماری ہے،، اور کچھ ایسے چہرے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں جو دن کے اجالے میں خطبہ حجۃ الوداع کی فضیلت بیان کرتے ہیں اور رات کی تاریکی میں اسی کی مخالفت کی تدبیریں تیار کرتے ہیں اور دوسروں کو صرف تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں یقیناً تعلیم بہت بڑی چیز ہے، تعلیم ایک محفوظ سرمایہ ہے لیکن تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے ورنہ صرف تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اور تربیت سے کوسوں دور رہنے سے تعلیم حاصل کرنے کا کوئی مقصد نہیں کیونکہ جتنے لوگ گمراہ ہوئے ہیں ان میں اکثر تعلیم یافتہ تھے کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ فلاں شخص جاہل تھا گمراہ ہوگیا ایسا اس لیے ہوا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت نہیں تھی اور تربیت کا تو اتنا اثر ہوتا ہے کہ ایک پیر کا بیٹا بغیر تعلیم حاصل کئے بھی پیر ہوجاتا ہے –
آئیے اب عبادت اور سیاست دونوں پرغور کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ عبادت اور سیاست دونوں میں کتنا گہرا تعلق ہے اور جو لوگ دونوں کو الگ رکھ کر عبادت سے رشتہ جوڑنے اور سیاست سے رشتہ توڑنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ کتنے مفاد پرست ہیں یہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کا نظام چلانے کیلئے حکمت عملی تیار کی جاتی ہے اور اسی حکمت عملی کا نام سیاست ہے، قوم کے روشن مستقبل کیلئے لائحۂ عمل تیار کیا جاتا ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرانے کیلئے جو فیصلہ لیا جاتا ہے اسی کا نام سیاست ہے اور اس سیاست سے انصاف کا ماحول قائم ہو اور انسانیت کو فروغ حاصل ہو اور دامن داغدار نہ ہوتو وہی سیاست عبادت ہے یعنی عبادت بھلے ہی سیاست میں تبدیل نہ ہو لیکن سیاست ضرور عبادت میں تبدیل ہوجاتی ہے اٹھائیے اورنگزیب عالمگیر کا واقعہ جب پنڈت رام لال کی بیٹی شکنتلا سے ابراہیم کوتوال نے زبردستی شادی رچانی چاہی اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے لگا تو شکنتلا اورنگزیب عالمگیر کی خدمت میں پہنچتی ہے بادشاہ نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے باہر نکلتے ہیں اور تمام فریادیوں کی طرح وہ بھی دروازے پر کھڑی ہے بادشاہ سب کی عرضی اپنے ہاتھوں سے لے رہے ہیں یہ سیاست ہے،،
لیکن جب لڑکی کا نمبر آیا تو بادشاہ نے ہاتھ میں ایک کپڑا لیا اور ہاتھوں میں کپڑا لپیٹ کر شکنتلا کے ہاتھ سے عرضی لی جب شکنتلا نے کہا کہ مہاراج آخر ایسا کیوں تو بادشاہ نے کہا کہ مذہب اسلام کسی دوسرے کی بہن بیٹی کو اپنی بہن بیٹی کی طرح سمجھنے کی تعلیم دیتا ہے کسی بھی نامحرم کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دیتا اسی وجہ سے میں نے ایسا کیا،، یہ عبادت ہے،، شکنتلا کو گھر جانے اور شادی کی تیاری کرنے کا حکم دیا،، یہ سیاست ہے،، پھر عین موقع پر آکر انصاف کرنا اور ابراہیم کوتوال کو اس کے کئے کی سزا دینا یہ عبادت ہے،، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودی سے کشتی لڑی کبھی وہ پٹکتا تو کبھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کو پٹکتے یہ سیاست ہے،، جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کو پٹک کر اس کے سینے پر سوار ہو کر گلا دبانے لگے تو یہاں تک سیاست ہے مگر جب یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر تھوک دیا تو حضرت علی کو اور غصہ آیا یہ بھی سیاست ہے لیکن جب بہت زیادہ غصہ آیا تو اس کا گلا چھوڑ دیا اور اس کے سینے سے اتر گئے اور کہا کہ میری نظروں سے دور ہوجا کیونکہ میں اپنی طاقت دیکھانے کیلئے نہیں اور اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے ایک دشمن کو ختم کرنے کے لئے لڑرہا تھا اور تونے میرے چہرے پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آیا اور میں نے تجھے اس لئیے چھوڑ دیا کہ کہیں میرا رب یہ نہ کہے کہ اے علی تونے چہرے پر تھوکنے کی وجہ سے اسے مارا اتنا خدا کا خوف،، تو یہ عبادت ہے،،